سہولیات کے صلے میں بیوی نے شوہر کو کیا دیا؟
آج سے بیس پچیس سال قبل خاتون خانہ کو امور خانہ داری چلانے کے لیے وہ سہولیات میسر نہیں تھیں، جو آج میسر ہیں۔ اس کی زندگی اتنی پر آسائش نہیں تھی جتنی آج ہے۔ امور خانہ داری چلانے میں جتنی آسانی موجودہ دور میں اسے حاصل ہے، بیس پچیس سال قبل اس کا بالکل تصور بھی نہیں تھا۔ چند مثالوں سے اس کا موازنہ کیا جا سکتا ہے۔
کپڑوں کی دھلائی کو ہی لے لیں۔ پہلے خاتون خانہ کو اپنے، اپنے شوہر اور بچوں کے کپڑے ہاتھوں سے دھونا پڑتے اور ان کو سکھانے کے لیے بھی کئی جتن کرنا پڑتے تھے۔ وہ گھنٹوں بیٹھ کر ان کپڑوں کو ہاتھوں کی مدد سے دھوتی، تب جا کر نتیجہ برآمد ہوتا۔ جبکہ موجودہ زمانے میں پسماندہ ترین علاقوں میں بھی شاید ہی ایسا کوئی گھر ہو، جہاں خواتین کو کپڑوں کی دھلائی کے لیے واشنگ مشین کی سہولت میسر نہ ہو۔ اب معمولی سی محنت سے چند منٹوں میں ایک ہی بار گھر کے سارے میلے کچیلے کپڑے دھل جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بعض گھروں میں ان کپڑوں کو سکھانے کے لیے مشین (ڈرائر) کی سہولت بھی دستیاب ہوتی ہے، ایک جگہ کھڑے کھڑے کپڑے دھونے کے ساتھ خشک بھی ہو جاتے ہیں۔
پہلے خواتین گھر کی ضروریات مثلاً پینے، کپڑے دھونے، مال مویشیوں کو پلانے، نہانے دھونے اور دیگر مقاصد کے لیے سارا پانی اپنے سر پر لانے اور ڈھونے کی مشقت میں مبتلا تھی۔ آج پانی سے وابستہ گھر کی جملہ ضروریات پوری کرنے کے لیے اسے گھر سے باہر قدم تک نہیں رکھنا پڑتا، بلکہ پانی ہر گھر کے صحن، واش روم حتیٰ کہ کچن تک مرد نے پہنچا کر اس کی مشقت میں کمی لائی ہے۔
پہلے وقتوں میں کھانے کے لیے قدیم طرز کے کچن ہوتے تھے، لکڑیوں کو مشقت سے جلانا اور ان میں پھونکوں سے آگ دہکانا ایک مشکل کام تھا۔ خواتین کے ہاتھ کوئلے سے سیاہ ہو جاتے، دھواں ان کے دوپٹے اور زلفوں کے آر پار ہو رہا ہوتا اور اسی عالم میں وہ کھانا پکانے پر مجبور تھی۔ اسی پر بس نہیں، بلکہ کچن کے چولہے، فرش اور دیواروں سے ہفتے عشرے میں ایک مرتبہ دھوئیں کی سیاہی مٹانے کے لیے مٹی ملے پانی سے لیپائی کی جاتی۔ آج اسی عورت کو شوہر نے گیس، گیس پر چلنے والے چولہے اور سہولیات سے آراستہ جدید طرز کا کچن بنا کر دیا، جس کی بدولت صفائی ستھرائی میں آسانی کے ساتھ ساتھ کچن کے دیگر کام بھی نہایت ہی آسانی سے انجام دیے جا سکتے ہیں۔
یہ صرف نمونے کے طور پر دو تین مثالیں دی گئی ہیں۔ ورنہ دیگر خانہ داری کے امور مثلاً، بچوں کی پرورش، گھر کی صفائی ستھرائی اور دیکھ بھال کے سلسلے میں بھی شوہر نے بیوی کو خاطر خواہ سہولیات مہیا کی ہیں۔ زمانۂ حال کے شوہر کی طرف سے بیوی کو اتنی سہولیات ملنے کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیوی نے اپنے شوہر کو بدلے میں کیا دیا؟
شوہر سے اتنی سہولیات حاصل کرنے کے بعد اس کو بیوی کی طرف سے صلے میں کیا ملا؟ کیا بیوی نے بچوں کی پرورش میں بہتری لائی؟ بچوں کی تربیت میں مثبت تبدیلی لائی؟ شوہر کے ساتھ وفاداری میں اضافہ ہوا؟ شوہر کی احسان مندی پہلے سے زیادہ ہوئی؟ شوہر سے متعلق کسی کام میں اس کے ساتھ تعاون ہوا؟ شوہر کی خدمت پہلے سے زیادہ شروع ہوئی؟ شوہر کی اطاعت کا جذبہ مزید پروان چڑھا؟ یقیناً ایسا نہیں۔
لہذا خواتین کو چاہیے کہ شوہر کی طرف سے حاصل مراعات اور سہولیات کے بدلے میں بچوں کی بہتر پرورش کریں، ان کی تربیت پر توجہ دیں، شوہر کے ساتھ وفاداری کا جذبہ پیدا کریں، شوہر کے احسانات کا احساس رکھیں، مشکلات میں اس کو حوصلہ دیں۔ پہلے سے بڑھ کر اس کی خدمت کریں اور اس کی فرماں برداری میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ یہی ان مراعات اور سہولیات کا بدلہ اور صلہ ہے اور یہی شوہر کا بیوی پر حق ہے۔ اسی طرح خاتون خانہ ایک مثالی اور سلیقہ مند بیوی ثابت ہو سکتی ہے۔