عیب جوئی میں خواتین مردوں سے آگے

ہم دوسروں کی عیب جوئی کرنے کی بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں تو بہت سی برائیاں ختم ہو سکتی ہیں

اخلاقی برائیوں میں سے ایک بدترین برائی دوسروں کے عیوب تلاش کرنا ہے۔ عام آدمی سے لے کر لیڈروں تک سب ایک دوسرے کی عیب جوئی کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں اور یہی وہ کام ہے جسے وہ تندہی سے انجام دیتے ہیں۔ آپ کسی بھی سیاسی قیادت کو دیکھیں تو وہ ہمہ وقت اپنے مخالفین کے وہ ، وہ عیب گنوا رہی ہوتی ہے جسے سن کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ جب ا س ملک کی سیاسی قیادت کے یہی معزز قائدین اپنی جماعت بدلتے ہیں تو ان کی توپوں کا رخ اپنے سابق ہم نواؤں کی جانب ہو جاتا ہے۔

ٹی وی کا کوئی بھی چینل دیکھیں وہاں یہی لوگ عیب اگلتے دکھائی دیں گے گویا ’’ساس بہو‘‘ کی لڑائی ہمارا قومی وطیرہ بن چکی ہے۔ نکتہ چینی اور چیزوں میں عیب نکالنا بھی ایک بیماری کی طرح ہی ہے…جتنی زیادہ ا س میں بے احتیاطی بڑھتی جائے گی اتنی زیادہ یہ بیماری مہلک اور خطرناک ہوتی جائے گی … ارد گرد نظر دوڑائیں تو کئی ایسے چہرے نظر آئیں گے جو اس بیماری کا شکار ہوں گے…ایسے لوگ یا تو احساس کتری کا شکار ہوتے ہیں یا پھر وہ دوسروں کو اپنے آپ سے کمتر اور خود کو ان سے بہتر سمجھتے ہیں یا پھر دوسروں لفظوں میں اس کو حسد کا نام بھی دیا جاسکتا ہے۔… بقول شاعر
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر
رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی جو اپنی برائیوں پر اپنی نظر
تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا…

عیب نہیں اچھائیاں تلاش کریں

دوسروں کا عیب تلاش کرنے والوں کی مثال اس مکھی کی ہے جو صرف گندگی پر بیٹھتی ہیں۔ عیب تلاش کرنے والے لوگوں کے مثبت پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف منفی پہلوؤں پر ہی انگلیاں اُٹھاتے ہیں۔ عیب نکالنے جیسے خطرناک اور تباہ کن مرض میں مبتلا مرد و زن جن کے نزدیک غیبت یا چغل خوری کرنا ‘ کسی کا راز فاش کرنا ‘ کسی کے گھریلو معاملات کو برسرِ عامل کرنا کوئی عیب یا گناہ نہیں ہوتا۔ معاشرے کے یہ چلتے پھرتے ریڈیو سٹیشن ‘ بظاہر انتہائی شریف اور معصوم نظر آنے والے یہ لوگ ہمدردی اور تعاون کی آڑ میں نہایت چالاکی سے کسی محفل یا مجلس میں بیٹھے دوسروں کے عیب تشہیر کر رہے ہوتے ہیں۔

مرد ہوں یا عورتیں‘ عیب جوئی کرنے سے پہلے روایتی جملے ضرور کہتے نظرآئیں گے ۔ قسم سے ڈرلگتاہے ‘ کہیں غیبت نہ ہو جائے، میں یہ بات صرف تیرے ساتھ ہی کر رہا ہوں یا کر رہی ہوں… یہ ایسے ماہرانہ اور فاضلانہ انداز میں کسی کی عزت نفس کی دھجیاں بکھیرتے ہیں کہ سامعین بھی ان کی معلومات اور ذہانت سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔

ماہر سماجیات احمد شاہ کہتے ہیں کہ ’’عیب نکالنا ایک مرض ہے اور لوگوں کی کثیر تعداد شعوری اور غیر شعوری طور پر اس میں ملو ث نظر آتی ہے۔ بعض افراد بظاہر خوشنما نظر آنے والے گناہوں کے اس سراب میں کھو کر ایسی عیب جوئی کرتے ہیں کہ گناہ و ثواب اور جزا و سزا ‘ ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتے۔ جب کوئی انہیں عیب جوئی سے منع کرتا ہے تو چالاکی اور عیاری کے پردہ میں چھپا معصومیت بھرا جواب ہوتا ہے کہ لو بھائی اس میں کون سی نئی بات ہے ‘ یہ عیب اس میں موجود تو ہے۔

اگرشخص کے عیب کی وجہ سے لوگ اسے برا جانتے ہیں یا وہ معاشرے میں اپنا مقام کھو رہا ہوتا ہے تو اسے اس کی کوتاہیوں کے بارے میں رازداری سے بتانا چاہیے تاکہ وہ اپنی غلطیوں پر نادم ہو مگر اس میں سب سے اہم اس کی عزت ہے۔

مرد بھی رائی کا پہاڑ بناتے ہیں

یہ درست ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے لیکن انسانی معاشرے میں ہر قول و فعل کی ایک حد ہوتی ہے اور جب مقررہ حد کو پھلانگ لیا جائے تو پھر اخلاقی و سماجی اقدار باقی نہیں رہتیں۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں دوسروں کی تحقیر و تذلیل ‘ نسب کے طعنے ‘ ذات میںکیڑے نکالنا ‘ پیٹھ پیچھے برائی کرنا‘ برے نام رکھنا اور چغلیاں لگا کر بھائیوں اور دوستوں میں پھوٹ ڈلوانا ایک عادت سی بن گئی ہے۔ بزرگوںکا قول ہے ‘ تلوار کا زخم بھر جاتا ہے زبان کا نہیں… یہی زبان جنت میں اور یہی دوزخ میں لے جائے گی۔ غیبت یا عیب جوئی ایسا قبیح جرم ہے جو معاف نہیں ہو گا جب تک وہ شخص جس کی غیبت کی جائے ‘ معاف نہ کرے۔ اس مرض میں اگرچہ مرد و خواتین دونوں برابر شریک ہیں لیکن متعدد سروے رپورٹس میں خواتین کی تعداد مردوں کی نسبت زیادہ بتائی گئی ہے۔

عیب جوئی محبت کی قینچی

کہا جاتا ہے کہ عیب جوئی محبت کی قینچی ہے۔ کوئی بھی شخص مکمل نہیں ہوتا لیکن ایسا بھی نہیں کہ کسی شخص میں کوئی اچھائی نہ ہو‘ بس دیکھنے والی نظر چاہیے۔

دوسروں میں عیب نکالنے کی برائی ہم ہر وقت کرتے رہتے ہیں اور پھر بڑی آسانی سے مفتی بن کر کسی پر کوئی فتویٰ لگا دیتے ہیں۔ بعض محفلوں میں تو ہم ایسے سکالر بن جاتے ہیں کہ جیسے دنیا کے ہر علم سے بخوبی واقف ہیں اور اگر کوئی ہلکی سی تعریف میں یہ کہہ دے کہ ’’جی آپ نے ٹھیک کہا ہے۔‘‘ بس پھر تو ہم اور پھولنے لگتے ہیں اور اپنے آپ کو معتبر سمجھتے ہوئے کوئی نیا فتویٰ داغ دیتے ہیں بلکہ سامنے بیٹھے لوگوں کو اپنے علم و سوچ اور تجربے کے آگے بالکل حقیر سمجھتے لگتے ہیں۔

تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو…

نامور مصنفہ بشریٰ رحمن کہتی ہیں :’’دوسروں میں عیب تلاش کرنے کی برائی بہت عام ہے ‘ ہر کوئی دوسرے میں عیب ڈھونڈتا ہے ‘رشتہ دار بھی اپنے رشتہ داروں کے عیب ڈھونڈتے ہیں تاکہ انہیں رسواکیا جا سکے۔ کوئی اپنے گریبان میں نہیں جھانکتا۔ کوئی اس بات کی طرف نہیں سوچتا کہ اگر ہم دوسروں کی بجائے اپنے عیب تلاش کرنے کی بیماری میں مبتلا ہو جائیں تو ہمارا معاشرہ سنور سکتا ہے

اگر دیکھا جائے تو انسان اگر اپنے عیوب کی اصلاح کی کوشش کرے تو دوسروں کے عیوب و نقائص کی جانب متوجہ ہی نہیں ہوگا اور نہ ہی اس گناہ کا مرتکب ہو گا کیونکہ ایسی حالت میں نہ صرف اس میں دوسروں کی عیب جوئی کے بارے میں رغبت پیدا نہیں ہوگی بلکہ اسے اپنے عیوب کی اصلاح کی فکر بھی ہو گی اور اس کے پاس اتنا وقت نہیں بچے گا کہ وہ دوسروں کے عیوب تلاش کریں۔ بقول شاعر
رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو
تجھ کوپرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو
ناخن خدا نہ دے تجھے اے پنجہ جنوں
دے گا عقل کے بخیے ادھیڑ تو

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button