فلم باربی صنفی امتیاز اور معاشرتی انداز کی تبدیلی کی عکاس
باربی بچیوں کا ایک پسندیدہ کردار ہے جو کم و بیش ہر گھر میں پایا جاتا ہے۔ یہ بچیوں کی بہترین دوست ہے جسے وہ بناتی ہیں سنوارتی ہیں اور بعض اوقات اپنے دکھڑے بھی اس کردار سے بانٹتی ہیں ۔ بچپن میں ہم نے بھی اس کردار سے بہت محبت کی ہے یہی وجہ ہے کہ باربی فلم کے آتے ہی ہر عمر کی خواتین اور بچیوں نے سینیما کا رخ کیا اور اب تو لڑکے بھی پنک لباس میں فلم دیکھتے نظر آئے۔ مجموعی طور پر فلم اچھی تھی اور کسی لمحے ایسا محسوس نہیں ہوا کہ ہمارا قیمتی وقت اور سرمایہ ضائع ہوا ہو۔رائٹر ہونے کی حیثیت سے فلم خالی دماغ سے تو نہیں دیکھی جا سکتی لہذا اپنا آزادی رائے کا حق استعمال کرتے ہوئے میں فلم دیکھنے کے دوران آنے والی سوچ کو قلمبند کرنا چاہوں گی ۔
باربی کی کہانی صنفی امتیاز اور خواتین کی خود مختاری کے گرد گھومتی نظر آتی ہے یہ موضوع فلم کی کامیابی کا بھی سبب ہےساتھ ہی کرداروں کی بہترین اداکاری اور خوبصورت رنگوں او رسجاوٹ سے بھر پور باربی لینڈ نے تو لوگوں کے دل جیت لیے جسے دیکھ کر باربی لینڈ دیکھنے کی خواہش نے سر اٹھایا ۔ پوری فلم نےاپنے ناظرین کو اپنے ساتھ باندھے رکھا اب فلم اپنے اختتام کو پہنچی تو باربی کو دکھایا گیا کہ وہ اپنی ساری تزئین و آرائش کو خیر باد کہتے ہوئے سادہ لباس میں عام سی چپلوں میں ایک حقیقی دنیا میں بحیثیت ایک خودمختار عورت قدم رکھتی ہے بس یہاں کچھ اختلاف پیدا ہوا کہ کیا عورت کو کامیاب ہونے کے لئے مرد کا روپ دھارنا ہو تا ہے؟ اگر وہ اپنی نسوانیت کو برقرار رکھے گی تو کامیاب نہیں ہو پائے گی؟ میرا خیال شاید اس سے مختلف ہے۔
یہاں باربی کی ایجاد کی وجہ کو جاننا ضروری ہے ۔ باربی اس وقت کی معاشرتی تبدیلیوں اور ایک جدید طرز زندگی کا انعکاس تھی۔ باربی کی تخلیق 1959 میں ہوئی جب معاشرتی ترقی تیزی سے بڑھ رہی تھی صنعت کاری کا زمانہ تھا اور عورتوں کی کارکردگی کے حوالے سے تصورات میں تبدیلی آ رہی تھی۔ باربی کو ایک مضبوط ، مستقل مزاج اور ہار نہ ماننے والی عورت کی شکل میں پیش کیا گیا تھا جو بلا تفریق مردوزن زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرتی ہوئی نظر آتی ہے وہ ڈاکٹر ، انجینئیر، ٹیچر، ساننسدان غرض ہر شعبے میں دکھائی جانے لگی جو کارہائے زندگی کے مختلف امور کو منظم کرتی ہوئی نظر آئی ۔ یہ تبدیلی معاشرے میں عورتوں کے روایاتی کردار کی ایک نئی تشریح تھی اور باربی کی شکل میں اس تبدیلی کو دکھایا گیا۔ تو یہ طے ہو گیا کہ باربی نے ہماری روایتی سوچ کو بدلنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔
اب ہم ایک اور نکتے پر آتے ہیں جہاں تک ہم جانتے ہیں کامیابی کے لئے مہارت، محنت ، لگن اور ہنر کی ضرورت ہوتی ہے جو صنفی امتیاز سے بالا تر ہے۔ عورت اپنی تزئین و آرائش کو پسند کرتی ہے کیونکہ اس کا مزاج اسی طرح ڈیزائن ہوا ہے یہ ہی چیز تو اس کو مرد سے مختلف بناتی ہے ۔کیا ایک عورت اپنی خواہش کے مطابق لباس اور جوتے زیب تن کرکہ معاشرے میں فعال کردار ادا نہیں کر سکتی ہے جبکہ وہ مردوں کے شانہ بشانہ ہر میدان میں کھڑے ہونے کے قابل ہو؟ ضروری ہے کہ اس کو اپنی کامیابی کے لئے مردوں جیسا روپ دھارنا پڑے گا تبھی وہ کامیاب ہو سکے گی ۔ عجیب بات ہے کہ عورت نسوانی جوتوں اور اپنی پسند کے رنگوں کو زیب تن کر کہ آفس نہیں جا سکتی۔ مردوں کو شاید کبھی یہ باتیں نہیں سکھائی گئی ہوں گی وہ اپنے مزاج کے حساب سے زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ معاشرے کے لئے تو دونوں صنف اپنا کردار ادا کرتے آ رہے ہیں توآخر پھر لڑائی کس بات کی۔میرے خیال میں تو مرد اور عورت دونوں کی ایک بھر پور شناخت ہے جس کو قائم رہنا چاہئے ۔ الٹی گنگا نہیں بہنی چاہئے۔
آخر میں گزارش ہے کہ بے شک عورت کو خود مختار ہونا چاہئے تاکہ اس کو کمزور سمجھ کر اس پر ظلم نہ ڈھایا جائے لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ مرد اپنی زمہ داریوں سے آنکھ بند کر لیں اس طرح تو عورت کے کاندھوں پر دوہرا بوجھ آ جائے گا۔مردوعورت دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں ۔ دونوں کی موجودگی اس دنیا کو خوبصورتی بنا تی ہے۔ مرد اپنی مردانگی سے اور عورت اپنی نسوانیت سے شرمندہ نہ ہوں۔ کامیاب ہونے کے لئے ہمیں اپنی ظاہری شکل و صورت کو تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ صلاحیتوں کی ضرورت ہے۔